جمعرات، 9 مارچ، 2023

لالچ

 حضرت عیسیٰؑ اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لے کر کسی سفر پر نکلے، راستے میں ایک جگہ رکے اور شاگرد سے پوچھا کہ :

" تمہاری جیب میں کچھ ہے ...؟ "



شاگرد نے کہا :

" میرے پاس دو درہم ہیں ...! "


حضرت عیسیؑ نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر اسے دیا اور فرمایا :

" یہ تین درہم ہوجائیں گے، قریب ہی آبادی ہے، تم وہاں سے تین درہم کی روٹیاں لے آئو ...! "


وہ گیا اور تین روٹیاں لیں، راستے میں آتے ہوئے سوچنے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے جبکہ روٹیاں تین ہیں، ان میں سے آدھی روٹیاں حضرت عیسیٰؑ کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی، لہٰذا بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھال لوں، چنانچہ اس نے راستے میں ایک روٹی کھالی اور دو روٹیاں لے کر حضرت عیسیٰؑ کے پاس پہنچا ....!


آپ نے ایک روٹی کھالی اور اس سے پوچھا :

" تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھیں ...؟ "


اس نے کہا :

" دو روٹیاں ملی تھیں، ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی ...! "


حضرت عیسیٰؑ وہاں سے روانہ ہوئے، راستے میں ایک دریا آیا، شاگرد نے حیران ہو کر پوچھا :

" اے اللہ کے نبی ...!

ہم دریا عبور کیسے کریں گے جبکہ یہاں تو کوئی کشتی نظر نہیں آتی ...؟ "


حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا :

" گھبراؤ مت، میں آگے چلوں گا تم میری عبا کا دامن پکڑ کر میرے پیچھے چلتے آو ،خدا نے چاہا تو ہم دریا پار کرلیں گے ....! "


چنانچہ حضرت عیسیٰؑ نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا، خدا کے اذن سے آپ نے دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے ...!


شاگرد نے یہ دیکھ کر کہا :

" میری ہزاروں جانیں آپ پر قربان ...!

آپ جیسا صاحب اعجاز نبی تو پہلے مبعوث ہی نہیں ہوا ...! "


آپ نے فرمایا :

" یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ...؟ "


اس نے کہا :

" جی ہاں ...!

میرا دل نور سے بھر گیا ...! "


پھر آپ نے فرمایا :

" اگر تمہارا دل نورانی ہوچکا ہے تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھیں ...؟ "


اس نے کہا :

" حضرت روٹیاں بس دو ہی تھیں ...! "


پھر آپ وہاں سے چلے، راستے میں ہرنوں کا ایک غول گزر رہا تھا، آپ نے ایک ہرن کو اشارہ کیا، وہ آپ کے پاس چلا آیا، آپ نے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا اور شاگرد کو بھی کھلایا۔

جب دونوں گوشت کھا چکے تو حضرت عیسیٰؑ نے اس کی کھال پر ٹھوکر مار کر کہا :

" اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا ...! "


ہرن زندہ ہو گیا اور چوکڑیاں بھرتا ہوا دوسرے ہرنوں سے جا ملا ...!


شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہو گیا او رکہنے لگا :

" اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور معلم عنایت فرمایا ہے ...! "


حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا :

" یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ...؟ "


شاگرد نے کہا :

" اے اللہ کے نبی ...!

میرا ایمان پہلے سے دوگنا ہو چکا ہے ...! "


آپ نے فرمایا :

" پھر بتاؤ کہ روٹیاں کتنی تھیں ...؟ "


شاگرد نے کہا :

" حضرت روٹیاں دو ہی تھیں ...! "


دونوں راستہ چلتے گئے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں پڑی ہیں،


آپ نے فرمایا :

" ایک اینٹ میری ہے اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس شخص کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی ....! "


یہ سن کر شاگرد شرمندگی سے بولا :

" حضرت تیسری روٹی میں نے ہی کھائی تھی ...! "


حضرت عیسی نے اس لالچی شاگرد کو چھوڑ دیا اور فرمایا :

" تینوں اینٹیں تم لے جاؤ ...! "


یہ کہہ کر حضرت عیسی وہاں سے روانہ ہوگئے اور لالچی شاگرد اینٹوں کے قریب بیٹھ کر سوچنے لگا کہ انہیں کیسے گھر لے جائے ...!


اسی دوران تین ڈاکو وہاں سے گزرے انہوں نے دیکھا، ایک شخص کے پاس سونے کی تین اینٹیں ہیں، انہوں نے اسے قتل کر دیا اور آپس میں کہنے لگے کہ اینٹیں تین ہیں اور ہم بھی تین ہیں، لہٰذا ہر شخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آتی ہے، اتفاق سے وہ بھوکے تھے، انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دئیے اور کہا کہ شہر قریب ہے تم وہاں سے روٹیاں لے آو، اس کےبعد ہم اپنا اپنا حصہ اٹھالیں گے، وہ شخص روٹیاں لینے گیا اور دل میں سوچنے لگا اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں تو دونوں ساتھ مر جائیں گےاور تینوں اینٹیں میری ہو جائیں گی، ادھر اس کے دونوں ساتھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے اس ساتھی کو قتل کر دیں تو ہمارے میں حصہ میں سونے کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آئے گی ...!


جب ان کا تیسرا ساتھ زہر آلود روٹیاں لے کر آیا تو ان دونوں نے منصوبہ کے مطابق اس پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا، پھر جب انہوں نے روٹی کھائی تو وہ دونوں بھی زہر کی وجہ سے مر گئے، واپسی پر حضرت عیسیٰؑ وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ اینٹیں ویسی کی ویسی رکھی ہیں جبکہ ان کے پاس چار لاشیں بھی پڑی ہیں، آپ نے یہ دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھر ی اور فرمایا :

" دنیا اپنی چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے ...! "

(واللہ تعالٰی اعلم)

(انوار نعمانیہ ص۳۵۳)


تو معزز قارئین کرام یہ ہے دنیا اور اس کی محبت جس کے لیے میں اور آپ دن رات ایک، دوجے سے سبقت لے جانے کے لیے بیتاب ہوئے جا رہے ہیں اور دراصل یہ ہمیں پل، پل موت سے قریب کیے جا رہی ہے ....!


وقت ملے تو اس پہلو پر سوچئے گا ضرور ...

منگل، 7 مارچ، 2023

معافی


بغداد کے مشہور شراب خانے کے دروازے پر دستک ہوئی. نشے میں دھت شراب خانے کے مالک نے ننگے پاؤں لڑکھڑاتے ہوئے دروازہ کھولا تو سامنے سادہ لباس پہنے ایک پُر وقار شخص کھڑا تھا. شراب خانے کے مالک نے اُکتائے ہوئے لہجے میں کہا "معاف کیجیے شراب خانہ بند ہو چکا ہے, سب ملازم جا چکے ہیں آپ کل آئیے گا." اِس سے پہلے کہ شراب خانے کا مالک پلٹتا. اُس پُر وقار شخص نے مالک کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا "مجھے بشر بِن حارِث سے ملنا ہے. اُس کے لئے ایک اہم پیغام ہے" اۂس پر شراب خانے کے مالک نے چونک کر کہا "کہیے میں ہی بشر بِن حارِث ہوں" اُس اجنبی شخص نے اِس لڑکھڑاتے ہوئے شخص کو سر اے پاؤں تک دیکھا اور کہنے لگا "کیا آپ ہی بشر بِن حارِث ہیں؟" اُکتائے ہوئے لہجے میں شراب خانے کے مالک نے کہا "میں ہی بشر بِن حارِث ہوں, کہیے آپ کو کوئی شک ہے؟" اِس پر اِس اجنبی شخص نے آگے بڑھ کر بشر بِن حارِث کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہنے لگا کہ "مجھے مالِکِ ارض و سماء نے بھیجا ہے کہ میرے بشر بِن حارِث, میرے دوست کو سلام کہنا اور کہنا بشر بِن حارِث جس طرح تم نے میرے نام کی عزت رکھی ہے اسی طرح رہتی دُنیا تک اللہ تیرے نام کی عِزت رکھے گا. بشر بِن حارِث کے جسم میں جیسے بجلی کی لہر دوڑ گئی ہو اور پھر اُس کی آنکھوں میں وہ منظر دوڑ آیا جِس دن وہ نشے میں دھت چلا جا رہا تھا تو رستے میں کُوڑے کے ڈھیر پر, گندگی پر اُس کی نظر پڑی, ایک کاغذ کا ٹکڑا پڑا ہوا تھا جس پر لفظ اِسم اللہ لکھا ہوا تھا. بشر بِن حارِث آگے بڑھے, اِس کاغذ کو اُٹھایا, چُوما اور صاف کر کے ایک پاک صاف جگہ پر رکھ دیا. اور کہنے لگا اے مالکِ عرشِ عظیم یہ مقام تو بشر کا ہے. تیرا مقام تو بادشاہی ہے, تُو تو سارے جہان کا مالک ہے" یہی وہ اداء تھی جو بشر بِن حارِث کو بشر حافی بنا گئی. کون بشر حافی؟ امام احمد بن حنبل اتنے بڑے عالم اور محدث ہو کر بشر بن حارث کے پیچھے پیچھے پھرا کرتے تھے. تو لوگوں نے پوچھ لیا کہ امام احمد بن حنبل آپ اتنے بڑے عالم ہو کر ایک بشر حافی فقیر کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں. تو اِس پر امام احمد بن حنبل نے کہا "لوگو سنو, امام احمد بن حنبل جس رب کو مانتا ہے بشر حافی اُس رب کو جانتا ہے"#

بدھ، 14 جولائی، 2021

ذوالفقار علی بھٹو اور سیٹھ عابد کی جنگ

سیٹھ عابد: یہ نام زبان پر آتے ہی ایک پراسرار پاکستانی شخصیت کا خیال ذہن میں آتا ہے اور ناقابلِ یقین کہانیاں گردش کرتی ہیں۔ سیٹھ عابد کا کراچی میں انتقال ہو گیا ، اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا کرے ۔پاکستانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کو دیکھا جائے تو سیٹھ عابد کے بارے میں کچھ اور کہانیاں بھی گردش کرتی نظر آتی ہیں۔ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’جب امریکی حکومت نے پاکستان پر ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ درآمد کرنے پر پابندی عائد کی تو یہ سیٹھ عابد ہی تھے جنھوں نے فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ بحری راستے سے پاکستان پہنچایا تھا۔‘اس کے علاوہ سیٹھ عابد پر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان سے تنازع کے بعد ’پاکستان کی سابق وزیراعظم اور اس وقت لندن میں زیرِ تعلیم بےنظیر بھٹو کو ساتھ لے جانے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔‘سیٹھ عابد کا نام نومبر 2006 میں اس وقت بھی خبروں میں آیا تھا جب ان کے بیٹے حافظ ایاز کو ان کے محافظ نے لاہور میں زندگی سے محروم کر دیا تھا۔اس کے بعد گذشتہ کئی برس میں سیٹھ عابد کا نام زیادہ نہیں سنا گیا تاہم 2019 ءمئی میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ تقریب میں سیٹھ عابد کا ذکر شارجہ میں پاکستان انڈیا کے کرکٹ میچ کے تناظر میں کیا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’سیٹھ عابد نے شوکت خانم ہسپتال کی بہت مدد کی تھی۔‘ذرائع کے مطابق کراچی کا صرافہ بازار کسی زمانے میں ”کامل گلی“ میں ہوا کرتاتھا . اسی صرافہ بازار میں پاکستان کے نامور بزنس مین سیٹھ عابد کے والد کی دکان بھی ہوا کرتی تھی . سیٹھ عابد (شیخ عابد حسین) کے والد کی بابت بتایا جاتاہے کہ انھوں نے ”امام مہدی“ ہونے کا دعویٰ کر رکھا تھا. وہ صرافہ بازار میں ایک ہاتھ میں قینچی لے کر گھوما کرتے تھے اور جہاں کسی شخص کے چہرے پر ڈاڑھی اور مونچھیں دیکھتے وہیں قینچی سے اس کی مونچھیں تراش دیتے کیونکہ ایسا کرنا سنت رسول کے عین مطابق تھا. اللہ نے انھیں چھے بیٹے عطا کیے۔ ان چھے بیٹوں میں سے ہر ایک ”ارب پتی“ تو ضرور ہے. ایک اور بات جو ان بھائیوں میں مشترک تھی وہ یہ ہے کہ سب کے سب حاجی تھے. ان بھائیوں میں شیخ عابد حسین کے پاس سب سے زیادہ دولت تھی. شیخ عابد حسین اپنے سارے بھائیوں میں وہ سب سے زیادہ ہوشیار، ذہین اور بات کی تہ تک فوراً پہنچنے والے ہیں. ان کا دماغ ایک کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے. ان کی تصویر آج تک کسی نے نہیں دیکھی، پبلک ریلیشنگ کا انھیں سرے سے کوئی شوق نہیں، اللہ نے انھیں ایک بیٹی یعنی نصرت شاہین اور تین بیٹوں سے نوازا. ان کے دونوں چھوٹے بیٹے گونگے بہرے اور ذہنی معذوراور امریکا میں کسی بورڈنگ ہاؤس میں رہتے ہیں. ان کا بڑا بیٹا ایاز جسے انکے محافظ نے زندگی سے محروم کر دیا ، حافظ قران تھا اور ایک مسجد میں نماز تراویح بھی پڑھایا کرتا تھا ۔ سوشل میڈیا پر انکے بارے میں طرح طرح کے تبصر ے موجود ہیں ، ایک سوشل میڈیا صارف کے مطابق ’جب میں بارہ تیرہ برس کا تھا تو میرے ایک دوست نے بتایا کہ سیٹھ عابد نے ڈاکٹر قدیر خان کو کنٹینر میں پاکستان پہنچایا ۔‘ایک اور صارف نے لکھا کہ ’ایک ٹی وی شو میں نیلامی کے دوران سیٹھ عابد نے میانداد کا شارجہ والا بلا اپنے بیٹے کے لیے پانچ لاکھ روپے میں خریدا تھا۔‘فہیم فاروق نامی صارف نے لکھا ’جب میں اپنی والدہ سے مہنگی چیزیں مانگا کرتا تھا وہ کہتی تھیں تیرے کو سیٹھ عابد کے گھر پیدا ہونا چاہیے تھا۔‘ایک صارف نے سیٹھ عابد کی دولت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ’پنجاب میں آج بھی سیٹھ عابد کا نام کئی جگتوں میں استعمال کیا جاتا ہے جب بھی کوئی اپنی دولت کی نمائش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ بیٹھ جاؤ، بڑے تم سیٹھ عابد کے بچے۔‘حسن ملک نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے لکھا ’سیٹھ عابد نے کرنسی نوٹوں پر اپنی تصویر چھاپنے کے بدلے پاکستان کا سارا قرضہ اتارنے کی پیشکش کی تھی۔‘انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ضیا کے دور میں حکومت کے پاس پیسے نہ ہونے کی وجہ سے سیٹھ عابد نے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے پیسے دیے تھے۔رمیز عارف نے تو اپنی ٹویٹ میں سیٹھ عابد کو ملک ریاض کے ساتھ دیکھنے کا دعویٰ بھی کر ڈالا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 65ءکی پاکستان بھارت لڑائی میں امریکہ نے ایف اے ٹی سِکس کے پارٹس پاکستان کو دینے سے انکار کردیا تو بھی سیٹھ عابد نے چوری سے لاکر کر کے پاک فضائیہ کو دیدیئے. ذوالفقار علی بھٹو اس زمانے میں پاکستان کے وزیراعظم تھے. انھوں نے 5 کروڑ روپے پیپلز پارٹی کے لیے بطور فنڈ سیٹھ عابد سے طلب کر لیے. انھوں نے دینے سے صاف انکار کر دیا. بھٹو صاحب کی ہدایت پر سیٹھ عابد کی گرفتاری کے لیے ہر جگہ چھاپے پڑنے لگے لیکن وہ موجود ہوتے ہوئے بھی ہاتھ نہ لگ سکے. اسی زمانے میں ایک بار کچھ فوجی ٹرک ان کے گھر کے سامنے کھڑے دیکھے گئے معلوم ہوا کہ وہ سیٹھ عابد کی اکلوتی بیٹی نصرت شاہین کی گرفتاری کے لیے آئے ہیں. فوجی سیٹھ عابد کی صاحبزادی کو ٹرک میں بٹھا کر لے گئے. جب سیٹھ عابد کے علم میں یہ بات آئی تو انھوں نے لندن میں زیر تعلیم بے نظیر بھٹو کو غائب کروا دیا. اب سیٹھ عابد کی بیٹی بھٹو کی قید میں اور بھٹو کی دختر سیٹھ عابد کی تحویل میں، بہرکیف دونوں میں سمجھوتہ ہو گیا اور نصرت شاہین اور بے نظیر بھٹو رہا کر دی گئیں. آپ کو یہ جان کر تعجب اور حیرت ہو گی کہ بھٹو کے خلاف محمداحمد قصوری کیس میں سلطانی گواہ بننے والا شخص ”مسعود محمود“ بھٹو صاحب کی بنائی ہوئی فورس کا سربراہ اور سیٹھ عابد کا حقیقی برادر نسبتی (سالا) تھا. بھٹو کے مقدمے میں گواہی دینے کے بعد وہ امریکا چلا گیا تھا. وہیں اس نے اپنی زندگی کے آخری سانس لیے تھے. یہ بھی ایک قصہ ہے کہ سیٹھ عابد اور ایک اور شخص قاسم بھٹی خلیج کے کسی ملک سے سونا غیر قانونی طور پر پاکستان لا رہے تھے کہ جنرل ایوب خان نے 1958ء میں مارشل لا نافذ کر دیا. دونوں نے مل کر بحیرہ عرب میں اس سونے کو چھپا دیا. قاسم بھٹی کی وفات کے برسوں بعد سیٹھ عابد نے سپریم کورٹ سے اس سونے کا مقدمہ جیت لیا اور یہ سارا سونا اس کے قبضے میں آ گیا. قاسم بھٹی وہی ہیں جنہوں نے کراچی کے ایک معروف ہوٹل فریڈرکس کیفے ٹیریا میں صدر سکندر مرزا کی اہلیہ ناہید سکندر مرزا کو سونے کا ہار بھی پہنایا تھا.شیخ عابد حسین المعروف سیٹھ عابد کا آبائی تعلق پنجاب کے ضلع ’قصور‘ سے تھا ایک بار صدر ایوب خان نے ان پر زور دیا کہ وہ اپنے کاروبار میں ان کے بیٹے کو بھی شریک کریں مگر سیٹھ عابد نہ مانے تو مارشل لاءدور میں سیٹھ پر سختی تو ہونا ہی تھی جس پر انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔کئی من سونا انہوں نے لانچ میں دبئی بھجوانے کی کوشش کی۔یہ لانچ ابھی کراچی کے پانیوں میں تھی کہ حکام کو خبر ہوگئی،لانچ کا تعاقب کیا جانے لگا۔وائرلیس پر سیٹھ عابد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے لوگوں سے کہا۔”لانچ کے شٹر کھول دو”اس کے بعد اگلے لمحے ایک لیور کھینچا گیا اور کجی من

اتوار، 4 جولائی، 2021

خوداری اور غیرت


 کیا آپ جانتے ہیں !

 شاہین کو پکڑنے کے بعد اسے مٹی میں دبایا جاتا ہے اور اس پر پانی چھڑکا جاتا ہے کیونکہ جال میں پھنسنے پر غصے سے اس کا دل پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے، اس وقت وہ اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے یعنی خود کشی کی کوشش کرتا ہے کیونکہ وہ کسی کے جال میں پھنسنے کو اپنی سخت توہین سمجھتا ہے، شاہین کو پکڑنے والے اس کو پکڑ نے کے فوراً بعد کچھ دیر کے لیے اس کے سامنے نہ آنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ شاہین اپنے شکاری سے سخت نفرت کرتا ہے اور اس کو دیکھ کر ہارٹ اٹیک کا خطرہ ہوتا ہے

خوداری اور غیرت #

لالچ

 حضرت عیسیٰؑ اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لے کر کسی سفر پر نکلے، راستے میں ایک جگہ رکے اور شاگرد سے پوچھا کہ : " تمہاری جیب میں کچھ ہے ...؟ &...